عشق بلا خیز
عشق بلا خیز
از قلم ۔ شگفتہ ارم درانی۔ پشاور
قسط نمبر 1
اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ۔ اس کا دل رو رہا تھا۔ اس کا خوبصورت چہرہ مرجھائے ہوئے پتے کی طرح ذرد اور جذبات سے عاری تھا۔ آج پھر نوید نے اس کا دل دکھایا تھا۔ اس کے پیار کو ٹھوکر مار کر چلا گیا تھا ۔ کاش وہ ارشی کا دل کھول کر دیکھ سکتا کہ وہ نوید سے کس قدر ٹوٹ کر پیار کرتی ہے ارشی کے جذبات کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ یہ کہہ کر چلا گیا۔
'' ارشی پلیز۔ تم مجھے بھول جاؤ۔ پلیز میں تم سے پیار نہیں کرتا۔''
اور ارشی جس کے دل میں نوید کے لئے بے لوث محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ خاموشی کی تصویر بنی کھڑی رہی۔ اس کے زبان سے ایک جملہ بھی ادا نہ ہو سکا۔ ہاں البتہ اس کی آنکھوں سے آنسو ضرور برسے جو چیخ چیخ کر نوید کی بے وفائی پر بین کر رہے تھے۔
وہ ارشی جس نے نوید کے ساتھ اپنا خوشگوار بچپن بتایا تھا۔ وہ ارشی جسے بچپن ہی سے نوید کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ نوید کی یادوں سے سجایا تھا۔ جس کے جسم میں نوید کے نام کی سانسیں چلتی تھیں۔ جس کی آنکھوں میں نوید تھا۔ آخر کیسے۔ کیسے وہ بھلا دیتی اس نوید کو؟ اس نوید کو جو خود سے زیادہ ارشی کو چاہتا تھا۔ جس نے ارشی سے محبت کےعہدوپیمان کیے تھے۔ جس نے کبھی ارشی کے وجود کو بری نظر سے نہ دیکھا تھا اور ہمیشہ یہ والہانہ محبت بھری نظر پاکیزگی کے پانی میں دھو کر اس کے وجود پر ڈالتا تھا۔ وہ اتنا بدل کیوں گیا؟ اتنا بے پرواہ۔ اتنا لا تعلق اور اتنا بے وفا کیسے ہو گیا ۔۔۔۔۔؟
جو بھی تھا ارشی کا دل تو ٹوٹ گیا تھا۔ کرچی کرچی ہو گیا تھا۔ پہلے تو وہ نوید کے باتوں کو مذاق سمجھی لیکن جب نوید نے اس سے یہ کہا۔'' میں تم سے پیار نہیں کرتا۔ پلیز ارشی میرا پیچھا چھوڑ دو خدا کے لئے۔'' تو ارشی چونکے بغیر نہ رہ سکی۔ اور جب اس نے نوید کی آنکھوں میں سچائی پڑھنے کی کوشش کی تو اس نے نظریں جھکا دیں۔
ارشی اور نوید دونوں کزن تھے۔ پہلے گاؤں میں رہتے تھے۔ تین سال پہلے ہی شہر آئے تھے۔ ارشی اور نوید نے اکٹھے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں رہنے لگے۔ ان کا پیار مثالی تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور مستقبل میں ایک دوسرے کے جیون ساتھی بھی بننے والے ہیں۔
ایک ماہ پہلے نوید اپنے آبائ گاؤں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد نوید کچھ اکھڑا اکھڑا اور پریشان سا رہنے لگا۔ اس کا دل کسی کام میں نہیں لگتا تھا۔ وہ نوید جو یونیورسٹی کا ایک شوخ و چنچل اور نمایاں سٹوڈنٹ تھا۔ اب ہر وقت بجھا بجھا سا رہتا تھا۔ یہ بات یونیورسٹی کے علاوہ اس کے گھر والوں نے بھی محسوس کی لیکن وہ کسی سے کچھ نا کہتا۔ سوائے اس کے کہ (کچھ نہیں ہوا ہے مجھے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں)
لوگوں نے اسے مزید کریدنا چھوڑ دیا لیکن ارشی اس کی پریشانی میں اسے تنہا چھوڑنے والی نہیں تھی۔ وہ نوید سے ہر وقت پوچھتی'' نوید مجھے تو بتاؤ آخر بات کیا ہے۔ دیکھو میری طرف کیا تمہیں مجھ سے پیار نہیں ہے؟'' اور نوید بیزار ہو کر اس سے دور چلا جاتا۔ جیسے اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہو۔ ارشی اس کی بے رخی برداشت نا کر پاتی اس لئے وہ ہر وقت سائے کی طرح نوید کے ساتھ رہنے لگی۔ اور اس سے پوچھنے لگی کہ آخر بات کیا ہے؟ ایک بات جو اس نے خاص طور پر محسوس کی تھی کہ جب بھی وہ نوید کے قریب ہوتی کوئی اندیکھی ہستی اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہوتی لیکن کسی وجہ سے کچھ نہ کر پاتی ۔ اسے واضح طور پر محسوس ہوتا جیسے کوئی اسے خونخوار انداز سے گھور رہا ہے۔ نوید واقعی ارشی سے دور رہنا چاہتا تھا۔ جب بھی ارشی اس کے ساتھ ہوتی ایک انجانا سا خوف اس پر طاری رہتا۔جیسے ابھی کوئی خونخوار جانور آ کر اسے چیر پھاڑ کر رکھ دے گا۔
آج اتوار کا دن تھا ۔ ارشی اپنے بیڈ پر بے سدھ پڑی تھی اسے نوید کی پرشانی اور بے رخی کا سرا نہیں مل رہا تھا۔ وہ بار بار پریشانی سے کروٹیں بدل رہی تھیں ۔ سارا دن اس نے یہی سوچنے میں گزار دیا کہ نوید کی پریشانی کیسے دور کرے؟
شام کے قریب اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔اور اس کی امی پریشانی کے عالم میں اندر آئیں۔
آئیں ۔ امی کیا بات ہے ۔خیریت؟
ارشی نے ان کی پریشانی دیکھتے ہوئے پوچھا۔
'' وہ بیٹا ۔ وہ '' اس کی امی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ بات کیسے کرے؟
'' کیا بات ہے امی؟'' ارشی نے پھر پوچھا۔
''بیٹا وہ نوید ''
''کیا ہوا نوید کو؟'' بتائیں نا۔۔۔۔؟
ارشی نے بے قراری سے پوچھا
''نہیں بیٹا۔ کچھ نہیں وہ ٹھیک ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔؟
''لیکن کیا ۔۔۔۔۔۔۔؟''
'' بیٹا ابھی ابھی نوید کی امی کا فون آیا تھا۔ نوید نے منگنی توڑ دی ہے۔ اور انگوٹھی بھی بھجوا دی ہے۔''
''کیا۔۔۔۔ منگنی توڑ دی۔۔؟'' ارشی نے حیران ہوتے ہوئے دہرایا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
(بیٹا صبر کرو) اس کی ماں نے اس کے سر کا بوسہ لیا اور روتے ہوئے باہر چلی گئی۔ ارشی ساقط سی ہو گئی۔ بیتے دنوں کے خوشگوار واقعات ولمحات جو نوید کے ساتھ اس نے گزارے تھے اس کی آنکھوں میں گھوم گئے۔نوید کے لئے وہ اپنے خدا سے رو رو کر دعائیں مانگتی تھی۔ جس کی چھوٹی سی پرشانی سے وہ دلبرداشتہ ہو کر آنکھیں بھگو دیتی تھیں۔ اس نے اپنے جسم پر پڑی کتاب کھولی جس میں اوپر ہی نوید کی تصویر پڑی تھی۔ اس نے تصویر اپنے نظروں کے سامنے پکڑی اور نم آلود آنکھوں سے اسے گھورنے لگی۔ وہ تصویر پھاڑنے لگی ہی تھی کہ اچانک اس کے ضمیر سے آواز آئی۔'' تصویر تو پھاڑ دو گی لیکن دل کا کیا کرو گی۔کیا دل سے نوید کو نکال پاؤ گی؟'' اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا پھر تصویر کو کتاب میں دوبارہ رکھ کر پرس اٹھایا ، جوتے پہنے اور باہر نکل گئی۔ وہ جانتی تھی کہ شام کو نوید کس پارک میں جاتا ہے۔
پارک پہنچ کر نوید کو تلاش کرنے میں زیادہ دقت نہ ہوئی۔ نوید ایک کونے میں بینچ پر سر جھکائے بیٹھا تھا ۔ وہ تیزی سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔ جونہی نوید نے اس کی طرف دیکھا ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔
'' یو چیٹر۔ تم نے تو منگنی توڑدی اور بے فکر ہو گئے لیکن میری زندگی تو تباہ کر دی نا تم نے۔۔۔۔۔۔ اب بتاؤ مجھے اس پیار کا حساب کون دے گا جو میں نے تم سے کیا۔؟ میں کیسے بھلاؤں گی تمہیں ۔ تمہارا جھوٹا پیار۔ بولو جوب دو۔ میں کیسے بھلاؤں گی؟'' ارشی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ نود کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ بوجھل قدموں سے ارشی کے قریب آیا۔
''مجھے بھلانا ہی بہتر ہے، تمہارے لئے۔'' یہ کہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہ خاموشی سے سر جھکا کر ایک طرف چل دیا جبکہ ارشی وہیں بیٹھ کر بھیگی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
سنا ہے پیار محبت، الفت، چاہت یہ سب ایک ہی پہلو کے چار نام ہیں لیکن عشق ان سے قطعاً مختلف ہے۔ محبت میں جسم پگھلتا ہے ،دل روتا ہے۔ لیکن عشق میں روح جلتی ہے اور ارشی کی کیفیت بھی یہی تھی۔ اس کی روح سلگ رہی تھی۔ کیونکہ اسے نوید سے عشق ہو چلا تھا۔ وہ گھر آ گئی اور ساری رات روتی رہی۔ رات کے دو بجے تہجد پڑھی اور خدا سے دعا کرتی رہی۔
'' نہیں نوید نہیں۔ خدا کی قسم میری روح میرا جسم چھوڑ دے گی لیکن میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی۔ '' اور وہ وہیں جائے نماز پر سو گئی۔
Sona shayari
06-Sep-2022 09:51 PM
بہت خوبصورت ناول ہے 🔥🔥🔥
Reply
Gunjan Kamal
06-Sep-2022 08:38 PM
👌👏
Reply